ہفتہ، 9 نومبر، 2013

Rukhsat Hua To Hath Bhi Mila Kr Nahi Gaya, Wo Q Gaya Ye Bhi Bata Kr Nahi Gaya,

Rukhsat Hua To Hath Bhi Mila Kr Nahi Gaya,

Wo Q Gaya Ye Bhi Bata Kr Nahi Gaya,

Yoon Lag Rha Hai Jese Abhi Lout Aye Ga,

Jalta Hua Charagh Bhi Bujha Kr Nahi Gaya,

Ghar Me Hai Aaj Bhi Wohi Khushbu Basi Hui,

Lagta Hai Yoon K Jese Wo Aa Kr Nahi Gaya,

Rehne Diya Na Us Ne Kisi Kaam Ka Mujhe,

Or Khaak Me Bhi Mujh Ko Mila Kr Nahi Gaya...

منگل، 5 نومبر، 2013

Tum Mohabbat Bhi Mousam Ki Tarah Nibhatay Ho

Tum Mohabbat Bhi Mousam Ki Tarah Nibhatay Ho
Kabhi Barastay Ho Kabhi Ak Boond Ko Tarsatay Ho

Pal Main Kehtay Ho Zamanay Main Faqat Teray Hain
Pal Main Izhaar -e- Mohabbat Say Mukar Jatay Ho

Bhari Mehfil Main Dushmano Ki Tarah Miltay Ho
Or Duaon Main Mera Naam Liye Jatay Ho

Dayaar -e- Ghair Main Mujh Ko Talash Kartay Ho
Milon Tu Pass Say Chup Chaap Guzar Jatay Ho

Laakh Mousam Ki Tarah Rang Badaltay Raho
Aaj Bhi Toot Kay Shiddat Say Humay Chahatay Ho
(¯`v´¯)
`•.¸.•´ … ¸.•°*”˜˜”*°•.
` `… ¸.•°*”˜˜”*°•.? ?•? Love Is Life ?•? ?

پیر، 4 نومبر، 2013

جس دیس سے مائوں بہنوں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اغیار اٹھاکر لے جائیں


جس دیس سے مائوں بہنوں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اغیار اٹھاکر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشراف چھڑاکر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مندر مسجد میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جاں کے رکھوالے ۔ ۔ ۔ ۔ خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس حاکم ظالم ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سسکیاں نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چادر داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت ماؤں سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفاء سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وعدوں پہ ہی ڈھالے جاتے ہوں
اس دیس کے رہنے والوں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہتھیار اٹھانے واجب ہیں
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سولی پہ چڑھانا واجب ہے

عرصہ بیتا زندگی نیتی سب کچھ بیتا لیکن پھربھی جو عشق میں نیتی عشق ہی جانے یا وہ جانے جس پہ بیتی


Wo mujh se pochta hai mera pyar kesa laga.?


Wo mujh se pochta hai mera pyar kesa laga.?

Udas lamhon ka intizaar kesa laga.?

Mene dekha us ki aankhOn mein or kaha.

Tarpa k mujh ko mere yaar kesa laga.?

Ek to siTam or us pe teri ye berukhi

Kya bataoun tujhe tere zakhmon ka shumaar kesa laga.?

Nibhayi hum ne har morr pe rasm-e-wafa lekin

Har baat pe tera inkaar or mera iqraar kesa laga.?

Mein wo jo maangta raha har lamha teri khushi ki dua,

Tum batao kar k meri aankhein ashk'baar kesa lagA.

جو گھر سے دور ہوتے ہیں بہت مجبور ہوتے ہیں


جو گھر سے دور ہوتے ہیں
بہت مجبور ہوتے ہیں
کبھی باغوں میں سوتے ہیں
کبھی چھپ چھپ کے روتے ہیں
گھروں کو یاد کرتے ہیں
... تو پھر فریاد کرتے ہیں
مگر جو بے سہارا ہوں
گھروں سے بے کنارہ ہوں
انہیں گھر کون دیتا ہے
یہ خطرہ کون لیتا ہے
بڑی مشکل سے اک کمرہ
جہاں کوئی نہ ہو رہتا
نگر سے پار ملتا ہے
بہت بے کار ملتا ہے
تو پھر دو چار ہم جیسے
ملا لیتے ہیں سب پیسے
اور آپس میں یہ کہتے ہیں
کہ مل جل کر ہی رہتے ہیں
کوئی کھانا بنائے گا
کوئی جھاڑو لگائے گا
کوئی دھوئے گا سب کپڑے
تو رہ لیں گے بڑے سکھ سے
مگر گرمی بھری راتیں
تپش آلود سوغاتیں
اور اوپر سے عجب کمرہ
گھٹن اور حبس کا پہرہ
تھکن سے چور ہوتے ہیں
سکوں سے دور ہوتے ہیں
بہت جی چاہتا ہے تب
کہ ماں کو بھیج دے یا ربّ
جو اپنی گود میں لے کر
ہمیں ٹھنڈی ہوا دے کر
سلا دے نیند کچھ ایسی
کہ ٹوٹے پھر نہ اک پل بھی
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
تو کر لیتے ہیں سمجھوتا
کوئی دل میں بلکتا ہے
کوئی پہروں سلگتا ہے
جب اپنا کام کر کے ہم
پلٹتے ہیں تو آنکھیں نم
مکاں ویران ملتا ہے
بہت بے جان ملتا ہے
خوشی معدوم رہتی ہے
فضا مغموم رہتی ہے
بڑے رنجور کیوں نہ ہوں
بڑے مجبور کیوں نہ ہوں
اوائل میں مہینے کے
سب اپنے خوں پسینے کے
جو پیسے جوڑ لیتے ہیں
گھروں کو بھیج دیتے ہیں
اور اپنے خط میں لکھتے ہیں
ہم اپنا دھیان رکھتے ہیں
بڑی خوش بخت گھڑیاں ہیں
یہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں





میں یارہ سال پہلے ملک سے باھر روزگار کے لیے آیا تھا سوچا تھا کہ بھائ پڑھ جاے گا شادی ھو جاے گی گھر بن جاے گا


میں یارہ سال پہلے ملک سے باھر روزگار کے لیے آیا تھا سوچا تھا کہ بھائ پڑھ جاے گا شادی ھو جاے گی گھر بن جاے گا حج عمرہ بھی ھو جاے گا اور ماں باپ کو بھی حج عمرہ کروا لونگا تو چلو باھر جا کر کچھ عرصہ لگا آتے ھیں آج یارہ سال ھو گئے ، شادی ھوگئ گھر بن گیا بھائ پڑھ کہ ڈاکڑ بن گیا ، زمین لی چھوٹا سا گھر بن گیا لیکن اب جب واپس جانے کی بات کرتا ھوں تو 100٪ لوگ کہتے ھیں پاکستان میں کچھ نہی ادھر مت آتا ،،، بھوکے مر جاو گے ،،،، یہ وہ میرا پاکستان میں رھنے والوں سے ایک سوال ھے کیا واقعی پاکستان میں کچھ نہی یا یہ خود ھڈ حرام ھیں ؟

کیا جو پاکستانی اپنی جوانی اپنا آج پردیس میں قربان کر رھے ھیں انکی قسمت میں پردیس ھی لکھا ھے ؟ کیا پاکستان میں کچھ نہی ؟ یا ھم کچھ کرنا ھی نہی چاھتے ؟

ھر کوئ یہ کیوں سوچتا ھے یا ویزا باھر کا مفت میں مل جاے یا سرکانی نوکری مل جاے باقی اسے کوئ کام نہ کرنا پڑھے محنت مشقت نہ کرنی پڑھے پردیس میں رھنے والے تو محنت مشقت کرتے ھیں نہ دن دیکھتے ھیں نہ رات دیکھتے ھیں نہ شہر دیکھتے ھیں نہ صحرا دیکھتے ھیں ۔ کیا میرا وطن واپس جانے کا فیصلہ غلط ھے 

اتوار، 3 نومبر، 2013

حضرت عائشہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ہیں کہ


حضرت عائشہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا

" کوئی مصیبت بھی انسان کو پہنچتی ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے حتی کہ جسم میں کانٹا بھی چھبے تو گناہ معاف ہوتے ہیں۔"

صیح بخاری۔۔۔موضوع کتب۔۔بیماریوں کا بیان

اللہ اکبر۔۔اللہ پاک کی رحمت تو بخشنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے یعنی بیماری ہو سر درد ہو زکام ہو حتی کہ کانٹا بھی چھبے تو گناہ معاف ہوتے ہیں
سبحان اللہ

ایک عورت سے کھانے میں نمک تیز ہوگیا ۔ شوہر کھانے کے لیے بیٹھا تو اتنا تیز نمک دیکھ کر اس غصہ آگیا


ایک عورت سے کھانے میں نمک تیز ہوگیا ۔ شوہر کھانے کے لیے بیٹھا تو اتنا تیز نمک دیکھ کر اس غصہ آگیا ۔ غریب آدمی تھا چھ ماہ بعد مرغی کا گوشت لایا تھا ۔ چھ ماہ سے دال سبزی کھا کھا اس کی زبان گوشت کھانے کے لیے بے چین تھی مگر بیوی نے نمک تیز کرکے سارا سالن خراب کردیا ۔
اس نے بیوی کو کچھ نہ کہا چپ چاپ کھا لیا اور کہا اے اللہ اگر میری بیٹی سے نمک تیز ہوجاتا تو میں یہ پسند کرتا کہ میرا داماد اسے معاف کردے ۔ میرے جگر کے ٹکڑے کو کچھ نہ کہے ۔ میری بیوی بھی تو کسی کے جگر کا ٹکڑا ہے ، کسی ماں باپ کی بیٹی ہے ، اور سب سے بڑھ کر تیری بندی ہے ۔ اے خدا میں اسے تیری رضا کے لیے معاف کرتا ہوں ۔
کچھ عرصہ بعد جب اسکاانتقال ہوگیا تو ایک اللہ والے نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا بھائی تیرے ساتھ کیا معاملہ ہوا ۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے اللہ کے سامنے پیش کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے گناہ گنوائے کہ تو نے فلاں گناہ کیا فلاں گناہ کیا ۔ میں نے سمجھ لیا کہ میں اب ان گناہوں کی وجہ سےجہنم میں جاؤں گا ۔ لیکن اللہ نے آخر میں فرمایا کہ جاؤ میں نے تمہیں اس وجہ سے معاف کیا کہ تم نے اپنی بیوی کو اس دن میری بندی سمجھ کر معاف کیا تھا جس دن اس سے نمک تیز ہوا تھا ، تو نے اسے گالی نہیں دی تھی ڈنڈا نہیں مارا تھا ۔ تم نے اس کی خطا میری رضا کے لیے معاف کی تھی تو آج میں تم کو معاف کرتا ہوں
(ملفوضات حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ تم میں سے سب سےبہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم میں سے سب سے اچھا ہوں

ہمارا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیا سلوک ہے ، ہم سب اپنا اپنا حال جانتے ہیں ، اگر کچھ کمی کوتاہی ہے تو یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں
1

کسی شہر میں ایک پانی بھرنے والا ماشقی رہتا تھا جو ایک سنار کے گھر پانی بھرا کرتا تھا


کسی شہر میں ایک پانی بھرنے والا ماشقی رہتا تھا جو ایک سنار کے گھر پانی بھرا کرتا تھا ۔ اسے پانی بھرتے ہوئے تیس سال کا عرصہ ہوگیا تھا ۔ اس سنار کی بیوی خوبصورت تھی اور جس قدر خوبصورت تھی اسی قدر نیک اور پارسا بھی تھی ۔
ایک روز وہ ماشقی پانی بھرنے کو آیا تا اس نے سنار کی بیوی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف کھینچا ۔ ان نے بمشکل ہاتھ چھڑایا اور اندر جا کر دروازہ بند کرلیا ۔
تھوڑی دیر بعد سنار گھر آیا تو اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ آج دکان پر کونسا کام خدا کی مرضی کے خلاف کیا ہے ۔
سنار بولا کہ آج ایک عورت کے ہاتھ میں کنگن پہناتے ہوئے مجھے اس کا بازو بہت خوبصورت نظر آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا ۔ بس یہی لغزش مجھ سے واقع ہوئی ہے ۔
بیوی بولی ۔ تو اب معلوم ہوا کہ تمہارے ماشقی نے آج میرا ہاتھ کیوں پکڑ کر کھینچا تھا ۔
سنار نے سارا واقعہ سنا تو کہنے لگا کہ میں اپنی غلطی سے توبہ کرتا ہوں ۔ خدا مجھے معاف فرمائے ۔
دوسرے روز ماشقی گھر آیا اور کہنے لگا کہ کل والی غلطی سے میں توبہ کرتا ہوں ۔ خدا مجھے معاف کرے ۔
سنار کی بیوی نے کہا میاں ماشقی جاؤ اس میں تمہارا کوئی قصور نہ تھا یہ تو میرے میاں ہی کا قصور تھا ۔
( روح البیان )
دوسروں کی عزتوں کی طرف سے گندی اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والے اس واقعہ پر غور کر لیں

میں شادی کی مخفلوں میں شریک ہونے کی بڑی شوقین تھی جبکہ میرا شوہر بڑا دیندار تھا،


میں شادی کی مخفلوں میں شریک ہونے کی بڑی شوقین تھی جبکہ میرا شوہر بڑا دیندار تھا،وہ ہمیشہ مجھے اختلاط سےبچنے کی تائید کرتاتھا۔ایک روز میں شادی کی محفل میں گئی محفل میں شریک عورتیں رقص کررہی تھیں۔مجھے بھی جوش آیا میں بھی اپنا برقع اتار کر ناچ گانے میں شریک ہوگئی۔ایک روز میرے شوہر نے کسی خلیجی ملک کاسفر کیا ،وہاں کسی دفتر میں نوجوانوں کے مابین اختلاف ہوگیا کہ خلیجی ممالک میں سب سے خوبصورے لڑکی کون سی ہے؟ایک نوجوان فوراَ اٹھا ایک ویڈیو کیسٹ لاکر حاضرکردی جسے اس نے میرے ملک کے کسی آدمی سے چوری چھپے بھاری قیمت دے کر خریدا تھا۔اس کیسٹ میں شادی کی اس محفل کی ویڈیو تھی جس میں میں نے بھی شرکت کی تھی ۔جب نوجوان نے کیسٹ لگائی تو وہ منظر دیکھ کر میرے شوہر کے پاؤں سے زمین کھسک گئی جس میں میں رقص کرہی تھی۔میرا شوہر اندر ہی اندر آگ بگولا ہورہاتھا،اس کی آتش غیظ و غضب تیز سے تیز تر ہورہی تھی۔وہ فوراَ سفر کے دیگر کاموں کو ملتوی کرکے واپس اپنے وطن آگیا۔گھر پہنچ تو میرے اور اس کے درمیان زبردست جنگ چھڑ گئی اور میرا انجام بھی وہی ہوا جو کسی عورت کےلئےسب سے تکلیف دہ ہوتا ہے۔اب میں مطلقہ ہوں میری زندگی عذاب سے گزر رہی ہے۔شقاوت وبدبختی نے مجھے رسوائی و بدنامی سے دوچار کردیا اب میں اکیلے زندگی کے کٹھن منازل طے کررہی ہوں۔

میرے مسلمان بہن بھائیو!آج ہمارے ہاں بھی اس طرح کا رواج ہے۔اگر کسی کے گھر شادی ہوتی ہے تو نوجوان لڑکیاں گانے گاتی ہیں اور ڈانس کرتی ہیں(پھر ویڈیو بھی بنتی ہے،کئی لوگ موبائلوں سے ویڈیو بنا کر پھر انٹرنیٹ پر چڑھادیتے ہیں جس سے ویڈیو ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے)۔
ایسی بہنوں کو اللہ تعالی سے توبہ کرنی چاہیے اللہ ہمیں بھی برے کاموں اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین
"بحوالہ سنہری کرنیں"

شادی کے چند دنوں کے بعد جمیلہ میکے آئی تو اس کی بہنوں اور سہیلیوں نے اس سے پوچھا: "دولہا بھائی کیسے آدمی ہیں؟"


شادی کے چند دنوں کے بعد جمیلہ میکے آئی تو اس کی بہنوں اور سہیلیوں نے اس سے پوچھا:
"دولہا بھائی کیسے آدمی ہیں؟"
جمیلہ کے چہرے پر شرم کی لالی ابھری۔ وہ اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولی:
"اچھے ہیں۔"
پھر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس کے چہرے کی لالی میں ہلکی سی سیاہی کی آمیزش ہوئی۔ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا:
"لیکن ہر وقت اپنی ماں کے مرید ہی بنے رہتے ہیں۔ ہر کام اس سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ میں نے کہا: گھر میں گیزر لگوا لیں، تو بولے: ماں جی سے بات کروں گا۔ میں نے کہا: کسی پارک میں سیر کرنے چلیں، تو بولے: ماں جی سے بات کرتے ہیں، اجازت ملی تو ضرور چلیں گے۔۔۔۔"
ایک سہیلی بولی:
"معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ماں سے شدید محبت کرتے ہیں۔"
یہ بات سن کر جمیلہ نے اس سہیلی کو ترچھی نظر سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے 'ہوں' کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔

دو سال کے بعد جمیلہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ ادھر وقت نے جمیلہ کے خاوند پر کوئی اثر نہ کیا۔ اس کا اپنی ماں کے ساتھ تعلق اسی طرح قائم رہا۔ جمیلہ بھی ویسی کی ویسی ہی رہی۔ جب بھی وہ میکے جاتی یا اس کی کوئی سہیلی اسے ملنے آتی تو وہ اپنے شوہر کے اس کی ماں کے ساتھ تعلق پر ضرور شکایت کرتی۔ اسے سب سے زیادہ اس بات پر شکوہ رہتا تھا کہ وہ اپنی ساری تنخواہ اپنی ماں کے ہاتھ پر کیوں رکھ دیتے ہیں۔

وقت کا پہیا چلتا رہا۔ ایک دن جمیلہ کے لڑکے کی شادی ہو گئی۔ وہ لڑکا بچپن سے اپنی ماں کی شکایت سن رہا تھا۔ وہ بیوی کے حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ اسے بالکل اسی طرح چاہتا تھا جس طرح جمیلہ بیوی کی حیثیت سے چاہتی تھی کہ اسے چاہا جائے۔ ایک دفعہ اس کی بیوی نے اپنے کمرے میں اے سی لگوانے کی بات کی، اس نے اسی وقت ہامی بھر لی۔ وہ کبھی باہر کھانا کھانے کی خواہش ظاہر کرتی تو وہ ہنسی خوشی مان جاتا اور ماں سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ حتی کہ چند ماہ بعد اس نے تنخواہ بھی بیوی کو دینا شروع کر دی۔
وقت کا دریا اسی طرح بہتا رہا۔
ایک دن جمیلہ اپنے گھر کے صحن میں چہرہ لٹکا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ باہر کھانا کھانے گیا ہوا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم ہوا جمیلہ کی ایک پرانی سہیلی اسے ملنے آئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی گرم جوشی سے ملیں۔ پھر وہ باتیں کرنے لگیں۔ باتوں باتوں میں جمیلہ کے لڑکے کا ذکر آ گیا۔ جمیلہ غمگین ہو گئی۔ اس کے ماتھے پر بہت سی شکنیں ابھر آئیں۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولی:
"وہ تو ہر وقت اپنی بیوی کا مرید ہی بنا رہتا ہے۔ اس کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ تنخواہ بھی ساری اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔"
سہیلی نے کہا:
"معلوم ہوتا ہے وہ اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہے۔"

یہ بات سن کر جمیلہ نے سہیلی کو ترچھی نظر سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے 'ہوں' کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔

ہفتہ، 2 نومبر، 2013

Teri duniya mein ya rab zist ke saman jalate hain


Teri duniya mein ya rab zist ke saman jalate hain
fareb-e-zindagi ke aag mein insan jalate hain
dilon mein azamat-e-tauhid ke dipak fasurda hain
jabinon par riya-o-kubr ke saman jalate hain
havas ke barayabi hai khirad-mandon ke mahafil mein
rupahali tikaliyon ke ot mein iman jalate hain
havadis raqs-farma hain qayamat muskurati hai
suna hai nakhuda ke naam se tufan jalate hain
shagufe jhulate hain is chaman mein bhuk ke jhule
baharon mein nasheman to bahar-e-unavan jalatae hain
kaheen aazeb ke chan-chan mein majboori tadapati hai
riya dam tod deti hai sunehre dan jalate hain
manao jashn-e-may-noshi bikharao zulf-e-mayakhana
ibadat se to “sagar” dahar ke shaitan jalate hain


Aisa nahi K Tujh Se Muhabat Nahi Humain

Aisa nahi K Tujh Se Muhabat Nahi Humain
Ghum Roz Roz Sehny ki Aadat Nahi Humain...!!!

Har Bar Tere Samne Sar Ko Jhoka Liya
Aur Phir Bhi Dekh Tujh Se Shikayat Nahi Humain...!!!

Tu Aitebar Kar K Tujhe Chahate Hain Hum
Tery Siwa Kisi Ki Bhi Chahat Nahi Humain...!!!

Hum Jante Hain Tum Tanha Nahi Hamary Bin
Auron Se Pochne Ki Zarorat Nahi Humain...!!!

Kese Rahen Gay Bin Tere Ab Baat Maan Lay
Tery Bagair Rahene ki ab Aadat Nahi Humain...!!!

ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ

ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻠﯽٰ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﺬﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻭﮦ ﻗﺼّﮧ ﮨﯿﮟ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﮔﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﯾﻢ ﺗﺮﺍﻧﮧ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺟﺬﺑﮧ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺟﯿﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﭘﻞ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻣﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﺟﺐ ﮨﺎﺗﮫ ﺩُﻋﺎ ﮐﻮ ﺍُﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺲ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻣﻨّﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﺠﮭﮯ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺭﺍﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﭘﺮ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ
ﯾﮧ ﻣﻮﺳﻢ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻭﻥ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮕﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻗﻄﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯽ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺑﻮﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﻭﮦ ﻓﯿﺾ ﮨﻮ ﻣﯿﺮ ﮨﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺍﺻﻐﺮ ﺟﮕﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﻟﺐ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺳﯿﻒ ﻋﺪﯾﻢ ﮨﻮ ﻓﺮﺣﺖ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺳﺎﺟﺪ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﻣﺠﺪ ﮨﻮ
ﺳﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﻓﮩﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﻻ ﮨﮯ
ﮐﯿﺴﺎ ﯾﮧ ﮐﮭﯿﻞ ﻧﺮﺍﻻ ﮨﮯ
ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﺳﺐ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ
ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﺗﻤﮩﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﮯ
ﻣﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺩﻋﻮﯾﺪﺍﺭ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ
ﺳﺐ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﯾﻮﯼ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﺗﻤﮩﯽ ﭘﺮ ﺟﭽﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﻧﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﯿﺮﻧﮓ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﺭﻭﻧﻖ ﮨﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣِﺮﯼ
ﻣِﺮﮮ ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﺗﻢ
ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﮍﯼ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻣِﺮﯼ
ﺟﻮ ﺧﺎﮎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﭼُﮭﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﻣﭩﯽ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﺗﻢ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺍﻭﭦ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺑﺲ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﮎ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﺟﺐ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮ
ﯾﺎ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﻓﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﺠﺘﯽ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﺎﮔﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﭘﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﻨﺎﻭ ¿ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ
ﺭﻧﮕﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻨﮏ ﺳﯽ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮ
ﺍُﺱ ﺭﻧﮓ ﭘﮧ ﺩﻝ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺭﻧﮓ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﯾﺎ ﺑﺮﯾﮏ ﮐﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﻣﯿﮟ
ﺳﮑﮭﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﭘﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺑﺲ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﺟﺲ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﮮ
ﻭﮦ ﭼﮩﺮﮦ ﺗﻢ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﮨﻮ ﯾﺎ ﮐﮯ ﺩﮬﻮﭖ ﺳﻤﮯ
ﺳﺐ ﮐﺘﻨﺎ ﺑﮭﻼ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺟﺎﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻧﺸّﮧ ﮨﮯ
ﮔﺮﻣﯽ ﮐﺎ ﺗﭙﺘﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﮭﯽ
ﺟﺎﮌﮮ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﺗﻢ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ
ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺣﺪ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ
ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﭗ ﮨﻮ
ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮔﮭﺒﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺳﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﮐﺎ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﮨﻮ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﭘﻮﭼﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﻣﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ
ﻟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﭘﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭼُﭗ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭﮞ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟؟

Andheri Raat Ke Lamhe Tamaam Hone Tak

Andheri Raat Ke Lamhe Tamaam Hone
Tak,
Tujhe Hi Sochta Hoon Subh Se Shaam
Hone Tak,
Main Aisa Jism Hoon Jis Ki Rooh Bhi
Tu Hai,
Adhuri Zaat Hoon Main Bin Tere
Naam Hone Tak,
Teri Aawaz Sun Na Loon To Mera Dil
Nahi Lagta,
Tadapta Rehta Hoon Tujh Se Hum
Kalaam Hone Tak,
Teri Nazar Ki Keemat Pe Bik Raha Hu
Mai Jaana,
Mujhe Khareed Le Tu Mehnge Daam
Hone Tak,
Ishq Ki Aag Jo Seene Mein Laga
Baithe Hain,
Sulagti Rehti Hai Ye Neendein Haram
Hone Tak.

جمعہ، 1 نومبر، 2013

بہت مدت سے ایسا ھے.، کہ تم خاموش رہتے ھو BAHOT MODAT SE ESA HA K TUM KHAMOSH REHTY HO

بہت مدت سے ایسا ھے.،
کہ تم خاموش رہتے ھو
کوئ گہرا ھے غم شاید
جسے چپ چاپ سہتے ھو.
.
یونہی چلتے ہوۓ تنہا
کوئ غمگین سا نغمہ
تم اکثر گنگناتے ھو.
.
دوران گفتگو یونہی
ملیں نظروں سے جب نظریں
تو باتیں بھول جاتے ھو.
.
کسی گم سم سی حالت میں
یا پھر بارش کے موسم میں
فقط اتنا ہی کہتے ھو
اداسی بے وجہ سی ھے
بہت بوجھل طبیعت ھے....!
بھلا سچ کیوں نہیں کہتے؟
تمہیں مجھسے محبت ھے...........!

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ


ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﺎﺭﮮ ﺭﺷﺘﮯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ-ﻭﮨﺎﮞ ﺻﺮﻑ
ﮨﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ-ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ،ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﻦ
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ- ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻧﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺮ ﮐﮯ
ﺍﻭﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺳﻤﺎﻥ، ﺑﺲ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ
ﺍﺱ ﺧﻼ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ – ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯﺭﮮ ﯾﺎ
ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﻭﻗﻌﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ- ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﯾﺎ
ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ – ﺻﺮﻑ ﮨﻤﺎﺭﺍ
ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ – ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮ ﺋﯽ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﺗﯽ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ۔

صفحہ دیکھے جانے کی کل تعداد